جامعۃ المدینہ گلوبل ویب سائٹ میں خوش آمدید ملحق شدہ کنزالمدارس بورڈ انٹرنیشنل

جانشینِ امیرِ اہلِ سنّت حضرت مولانا الحاج ابواُسید عبیدرضا عطاری مدنی مَدَّ ظِلُّہُ العالی کا پیغام

 

اللہ پاک کےآخری نبی مکی مدنی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اِنَّ الْعُلَمَاءَ ہُمْ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَاء ِیعنی علما انبیائے کرام کے وارث ہیں۔ ‫

(دارمی، 1/110، حدیث:342)

حضرت سیّدُنا امام محمد بن محمد بن محمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اس سے پتا چلا کہ جس طرح نبوت سے بڑھ کر کوئی مرتبہ نہیں اسی طرح نبوت کی وراثت (یعنی علم) سے بڑھ کر کوئی عظمت نہیں۔ (احیاء العلوم، 1/20) اے عاشقانِ رسول! اسلامی مدارس و جامعات وہ اہم مراکز ہوتے ہیں جہاں وراثتِ انبیا نسل دَر نسل منتقل کی جاتی ہے، اسی وجہ سے انہیں اسلام کے قلعے بھی کہا جاتا ہے۔ ان مدارس کے ذریعے اسلامی علوم کو پھیلانے کا سلسلہ شروعِ اسلام سے جاری ہے، تاریخِ اسلام میں تعلیم و تعلم کے سلسلے کی باضابطہ ابتدا مسجدِ نبوی کے ایک چبوترے سے ہوئی، حکیمُ الاُمت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: مسجدِ نبوی سے متصل تھوڑا سا چبوترا بنا دیا گیا تھا جہاں مہمان اترتے تھے اور علم سیکھنے والے فقراء صحابہ وہاں مستقل طور پر رہتے تھے یہ حضرات اصحابِ صُفَّہ کہلاتے انہیں کی سی صفات رکھنے والوں کو آج صُوفیاء کہتے ہیں، یعنی صفائیِ دل اور صوف کا لباس رکھنے والی جماعت، یہ حضرات کم و بیش ہوتے رہتے تھے کبھی 70 اور کبھی 200 سے زیادہ گویا یہ مدرسۂ نبوی تھا۔(مراٰۃ المناجیح،3/218)

اَلحمدُلِلّٰہ امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّار قادری رضوی ضیائی دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ بھی 40 سال سے زائد عرصے سے انبیائے کرام علیہمُ السّلام کی وراثت یعنی علمِ دین کو حاصل کرنے اور اسے پھیلانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، آپ دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کی علم دوستی اور وراثتِ انبیائے کرام کو لوگوں تک پہنچانے کا ایک ذریعہ دعوتِ اسلامی کے تحت جامعاتُ المدینہ کاقیام بھی ہے، 1994ء میں نیو کراچی کے علاقے گودھرا کالونی کے ایک مدرسۃُ المدینہ کی عمارت میں اس کی سب سے پہلی شاخ کا آغاز ہوا۔ امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ اور مبلغینِ دعوتِ اسلامی کی حصولِ علمِ دین کی بھرپور ترغیبات کے نتیجے میں جہاں بہت بڑی تعداد میں عاشقانِ رسول راہِ خدا میں سفر کرنے والے دعوتِ اسلامی کے مَدَنی قافلوں کے مسافر بنے اور بن رہے وہیں ایک بڑی تعداد نے مدنی قافلوں میں سفر کرنے کے ساتھ ساتھ باقاعدہ علمِ دین حاصل کرنے کے لئے جامعۃُ المدینہ کا بھی رُخ کیا اور کررہے ہیں۔ اسی وجہ سے کراچی اور پھر پورے پاکستان میں جامعۃُ المدینہ کی مزید شاخیں کھلتی چلی گئیں اور اس وقت جامعۃُ المدینہ کی برانچز پاکستان، ہند، نیپال، بنگلہ دیش، یوکے، ساؤتھ افریقہ، سری لنکا، موزمبیق، کینیا وغیرہ کئی ممالک میں قائم ہوچکی ہیں، جن میں ہزاروں طلبۂ کرام وراثتِ انبیا کو حاصل کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ اللہ پاک ان تمام طلبۂ کرام کواصحابِ صفہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی برکات نصیب فرمائے۔

اللہ پاک کی رحمت سے میں نے درسِ نظامی کے چار درجے مفتى امین عطارى صاحب رحمۃاللہ علیہ سے پڑهے، پھر مركزى جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ میں پڑھنے کی صورت بنی۔ اساتذۂ کرام کی شفقتوں اورعنایتوں کےساتھ جامعۃُ المدینہ میں میرا علمی اور تربیتی سفرجاری رہا، 2005ء میں درسِ نظامی مکمل کیا اور شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری اور شیخُ الحدیث حضرت علّامہ مولانا مفتی محمد اسماعیل ضیائی دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کے ہاتھوں دستارِ فضیلت حاصل ہوئی۔

اللہ پاک علمِ دین کے مہکتے پھولوں کے اس گلشن کو مدینے کی بہار کے صدقے سدا بہار رکھے، اس گلشن کی آباد کاری کا سبب بننے والوں کو ہنستا مسکراتا رکھے اور انہیں بلاحساب بخش کر جنّتُ الفردوس میں اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا پڑوس نصیب فرمائے۔

 

اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم